002 Surah Baqarah (Ayat 108 - 141) Tafseer By Dr Israr Ahmed | Bayan ul Quran By Dr Israr Ahmad

002 Surah Baqarah (Ayat 108 - 141) Tafseer By Dr Israr Ahmed | Bayan ul Quran By Dr Israr Ahmad

Surah Baqarah (Ayat 108 - 141) Tafseer By Dr Israr Ahmed | Bayan ul Quran By Dr Israr Ahmad سورہ البقرہ (آیات 108-141) کی تفسیر - بیان القرآن از ڈاکٹر اسرار احمد ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کی بیان القرآن میں سورہ البقرہ کی آیات 108 سے 141 کی تفسیر ایک نہایت جامع اور تفصیلی بیان ہے، جس میں مختلف موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے، جن میں شامل ہیں: 1. سابقہ امتوں کے رویے: بنی اسرائیل کے بارے میں ذکر کیا گیا کہ وہ بار بار معجزات اور نشانیوں کا مطالبہ کرتے تھے، اور ان کے اسی رویے پر تنقید کی گئی ہے۔ 2. اسلام کی عالمگیریت: بتایا گیا کہ اب دینِ اسلام تمام انسانیت کے لیے ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت عالمی ہے۔ 3. حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقام: حضرت ابراہیم علیہ السلام کو "امام الناس" یعنی تمام انسانوں کے لیے پیشوا قرار دیا گیا۔ 4. قبلہ کی تبدیلی: مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کو قبلہ بنانے کا ذکر کیا گیا، اور اس کے پیچھے حکمت بیان کی گئی۔ 5. مسلمانوں کی امتیازی حیثیت: امتِ مسلمہ کو بہترین امت قرار دیا گیا اور اس کی ذمہ داریوں کا ذکر کیا گیا۔ اگر آپ کو اس تفسیر کی مکمل آڈیو یا ویڈیو درکار ہے، تو میں آپ کو اس کا لنک فراہم کر سکتا ہوں۔ کیا آپ کو اردو میں تحریری خلاصہ چاہیے یا مکمل ویڈیو/آڈیو لنک؟ سورہ البقرہ کا شانِ نزول سورہ البقرہ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی اور یہ قرآن کی سب سے طویل سورت ہے۔ اس سورت کے نزول کا پسِ منظر مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست کے قیام، یہود و نصاریٰ کے اعتراضات، اور امت مسلمہ کی راہنمائی پر مشتمل ہے۔ اس کے شانِ نزول کو مختلف موضوعات کے تحت سمجھا جا سکتا ہے: 1. مدنی زندگی اور اسلامی احکام یہ سورت ہجرت کے بعد نازل ہوئی جب مسلمانوں کو ایک نئی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھنی تھی۔ اس میں اجتماعی، معاشرتی، اور قانونی احکام دیے گئے تاکہ ایک مضبوط مسلم معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔ 2. بنی اسرائیل کی تاریخ اور ان کی غلطیاں مدینہ میں بڑی تعداد میں یہودی آباد تھے جو خود کو حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کا اصل پیروکار سمجھتے تھے۔ سورہ البقرہ میں ان کی تاریخی غلطیوں، عہد شکنی، اور ضدی رویے کا ذکر کر کے مسلمانوں کو نصیحت دی گئی کہ وہ ان کے نقشِ قدم پر نہ چلیں۔ 3. قبلہ کی تبدیلی (بیت المقدس سے کعبہ کی طرف) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام تقریباً 16-17 مہینے تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے، مگر پھر اللہ کے حکم سے قبلہ خانہ کعبہ کی طرف کر دیا گیا۔ اس تبدیلی پر یہودیوں نے اعتراضات کیے، جس کے جواب میں سورہ البقرہ میں وضاحت دی گئی کہ اللہ جسے چاہے قبلہ مقرر کرے۔ 4. جہاد اور اسلامی ریاست کا دفاع مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد مسلمانوں کو مختلف جنگوں کا سامنا کرنا پڑا، جیسے غزوہ بدر، احد، اور خندق۔ اس سورت میں جہاد، جنگی حکمت عملی، اور صبر و استقامت کے احکام دیے گئے۔ 5. حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اصل ملت یہود اور نصاریٰ دونوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنی ملت کا بانی سمجھتے تھے، مگر قرآن نے واضح کیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کسی خاص قوم کے نہیں، بلکہ خالص توحید پرست (حنیف) تھے، اور ان کی اصل اتباع کرنے والے وہی ہیں جو دین اسلام پر ہیں۔ 6. احکامِ شریعت اور اسلامی قوانین اس سورت میں روزہ، حج، زکاة، تجارت، نکاح، طلاق، سود، قصاص، وصیت، اور دیگر شرعی احکام دیے گئے تاکہ مسلمانوں کے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات متعین کیا جا سکے۔ 7. آزمائش اور صبر کا پیغام سورہ البقرہ میں مسلمانوں کو صبر، شکر، اور استقامت کی تلقین کی گئی، اور حضرت آدم، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، اور دیگر انبیاء کی آزمائشوں کے ذریعے مسلمانوں کو سبق دیا گیا کہ کامیابی انہی کے لیے ہے جو اللہ کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔ یہ سورت ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو مسلمانوں کو دینی، سماجی، اور سیاسی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اگر آپ کسی مخصوص آیت یا موضوع کا شانِ نزول جاننا چاہتے ہیں تو بتائیں!